Submitted by MSQURESHI on Mon, 10/23/2023 - 12:15
PRO Office Image ثناءسلطانہ کو ہاﺅزنگ فینانس کے موضوع پر پی ایچ ڈی PressRelease

شارب ردولوی کی رحلت سے ترقی پسند تنقید کے ایک زریں باب کا خاتمہ
شعبہ شعبۂ اردو، مانو میں تعزیتی نشست۔ پروفیسر شمس الہدیٰ، پروفیسر سجاد حسین اور دیگر کے خطاب

  

 

حیدرآباد، 20 اکتوبر (پریس نوٹ) ممتاز ترقی پسند نقاد ادیب شاعر اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق استاد پروفیسر شارب ردولوی کے سانحہ ارتحال پر شعبہ اردو، مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی کی جانب سے ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف اساتذہ نے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ پروفیسر شارب ردولوی کا لکھنؤ میں 18 اکتوبر کی صبح انتقال ہو گیا تھا۔پروفیسر شمس الہدی دریابادی، صدر شعبہ ¿ اردو نے پروفیسر شارب ردولوی سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی کی رحلت سے ترقی پسند تنقید کے ایک زریں باب کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ وہ جتنے اچھے استاد تھے اتنے ہی اچھے انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں ایسی دلآویزی تھی کہ ہر شخص ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ وہ تنقید، ادبی سماجیات اور تقابلی ادب کی تدریس میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ ان کے شاگردوں نے 2018 میں ان کے اعزاز میں جشن شارب کا انعقاد کیا تھا۔ سب اپنے خرچ پر لکھنو ¿ پہنچے تھے اور اس سمینار میں تین دن تک ان کی شخصیت اور ادبی خدمات کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔
پروفیسر سجاد حسین سابق صدر شعبۂ اردو، مدراس یونیورسٹی نے کہا کہ شارب ردولوی کی شخصیت ظاہری طور پر جتنی پرکشش تھی باطنی اعتبار سے بھی ان میں اتنی ہی دلکشی تھی۔ وہ سب کے ساتھ خلوص اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ میں ریفریشر کورس کے سلسلے میں دہلی گیا تھا۔ اچانک گھر سے ٹیلی گرام آیا کہ میرے خسر کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس مشکل وقت میں پروفیسر ردولوی نے میری بڑی دلجوئی کی اور نہ صرف ٹکٹ بنوایا بلکہ اپنی کار سے ایئرپورٹ پہنچایا۔ جبکہ اس سے پہلے ان سے میری کوئی شناسائی نہیں تھی۔پروفیسر مسرت جہاں نے کہا کہ میں براہ راست ان کی شاگرد نہیں رہی لیکن میرے شوہر پروفیسر محمد ظفر الدین مرحوم اور ان کے بھائی شہزاد انجم پروفیسر شارب کے شاگرد تھے۔ وہ مجھ سے بھی اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی اپنے شاگردوں سے۔ ان سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ڈاکٹر فیروز عالم نے کہا کہ شارب صاحب جتنے اچھے استاد تھے اتنے ہی اچھے نقاد، ادیب اور شاعر۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انسان گھر اور باہر دونوں میں انصاف کر سکے۔ شارب صاحب اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی اچھے تھے اور باہر کی دنیا میں ان کی شرافت، خلوص، شفقت آمیز برتاو ¿ اور حوصلہ افزا رویے کے سب معترف ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی کی شکایت نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی کے بارے میں نازیبا کلمات کا استعمال کیا۔ ان کی خود نوشت سوانح " نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم" کے مطالعے سے ان کی منکسرالمزاجی، شرافت، وضع داری اور خلوص کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ابو شہیم خاں نے کہا شارب صاحب جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ ایک مثالی استاد تھے۔ وہ تنقید جیسا مشکل پرچہ بھی اتنی خوش اسلوبی سے پڑھاتے تھے کہ اس میں دلچسپی پیدا ہو جاتی تھی۔ وہ ترقی پسند نقادوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جس نے ادب میں گراں مایہ کارنامہ انجام دیا۔ڈاکٹر احمد خان نے کہا کہ شارب صاحب کم بولتے تھے لیکن ان کا ایک ایک لفظ گراں قدر ہوتا تھا۔ بعض اوقات وہ صرف مسکرا کر یا چہرے کے تاثرات سے طالب علموں کو جواب دے دیتے تھے۔ شعر و ادب کی تفہیم میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ڈاکٹر کہکشاں لطیف نے کہا کہ میں شارب صاحب کی اہلیہ پروفیسر شمیم نکہت کی شاگردہ تھی لیکن وہ مجھ سے بھی اتنی ہی محبت کرتے تھے جتنی دیگر طلبہ سے۔ میری تربیت میں ان کا بڑا رول ہے۔ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ ہم لوگ خوش نصیب تھے کہ ہمیں شارب ردولوی جیسے استاد سے کسب فیض کا موقع ملا۔ انہوں نے مغربی تنقید خصوصاً افلاطون کے نظریہ نقل سے جس طرح واقف کرایا تھا وہ آج بھی ذہن میں نقش ہے۔جلسے کی نظامت ڈاکٹر ابو شہیم خاں نے کی اور پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی کی دعائے مغفرت پر اس کا اختتام ہوا۔ اس موقعے پر شعبہ اردو کے علاوہ دیگر شعبوں کے اساتذہ و طلبہ بھی موجود تھے۔

 

ثناءسلطانہ کو ہاﺅزنگ فینانس کے موضوع پر پی ایچ ڈی
حیدرآباد، 20 اکتوبر (پریس نوٹ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی اسکالر ثنا سلطانہ دختر جناب عبدالنبی کو شعبۂ مینجمنٹ و کامرس میں پی ایچ ڈی کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنا مقالہ ”ہاﺅزنگ فینانس کے حوالے سے قرض داروں کے تاثرات ۔ کینفین ہومس اور آئی سی آئی سی آئی کا تقابلی مطالعہ“ ، ڈاکٹر محمد سعادت شریف، اسوسئیٹ پروفیسر، کامرس کی نگرانی میں مکمل کیا۔ ان کا وائیوا 19 ستمبر کو ہوا۔